Logo

شیعہ نیشن (شیعہ قوم)

شیعہ معلومات اور مواد کا سب سے بڑا مرکز

مینو

🔴 تازہ ترین
----- عزاداری سید الشہداءؑ ہماری شناخت ہے, لبیک یا حسینؑ-----❖-----ہم حُسینی ہیں، دُنیا میں پھیلے ہوئے-----❖-----امام حُسین کے غم میں رونا نبی صہ کی سُنت ہے-----❖-----شیعہ نیشن ڈاٹ کام ، پاکستان کا سب سے بڑا شیعہ معلومات کا پلیٹ فارم
اسلامی تاریخ

واقعہ کربلا: تاریخ، عظیم قربانی اور امام حسینؑ کا انسانیت کے نام آفاقی پیغام

شیعہ نیشن

مصنف

06 Dec 2025

تاریخ اشاعت

تاریخ انسانی میں کئی جنگیں لڑی گئیں، سلطنتیں بنیں اور مٹ گئیں، لیکن "واقعہ کربلا" وہ واحد معرکہ ہے جس نے وقت کے دھارے کو موڑ دیا۔ یہ 61 ہجری کا وہ واقعہ ہے جس میں نواسہ رسولؐ، حضرت امام حسینؑ نے اپنے بہتر (72) جانثاروں کے ساتھ مل کر یزیدی استبداد کے سامنے "انکار" کی ایسی دیوار کھڑی کی جو آج بھی مظلوموں کے لیے حوصلے کا منبع ہے۔

آئیے کربلا کی تاریخ اور اس میں چھپے امام عالی مقام کے پیغام پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

کربلا کا تاریخی پس منظر :

واقعہ کربلا اچانک رونما نہیں ہوا بلکہ یہ دو نظریات کا ٹکراؤ تھا۔ 60 ہجری میں معاویہ کی وفات کے بعد یزید نے تخت سنبھالا اور اسلامی اقدار کو پامال کرنا شروع کیا۔ یزید چاہتا تھا کہ امام حسینؑ اس کی بیعت کریں تاکہ اس کے سیاہ کرتوتوں کو سندِ جواز مل سکے۔

لیکن امام حسینؑ، جو آغوشِ رسالتؐ کے پلے ہوئے تھے، وہ ایک فاسق اور ظالم حکمران کی بیعت کیسے کر سکتے تھے؟ آپؑ نے فرمایا:

"مجھ جیسا (حسینؑ)، اس جیسے (یزید) کی بیعت نہیں کر سکتا۔"

یہ جملہ صرف ایک انکار نہیں تھا، بلکہ قیامت تک کے لیے اصولوں کی لکیر تھی۔

مدینہ سے کربلا تک کا سفر:

بیعت سے انکار کے بعد امام حسینؑ نے مدینہ چھوڑا اور مکہ تشریف لے گئے۔ وہاں سے کوفہ والوں کے خطوط موصول ہونے کے بعد آپؑ نے عراق کا رخ کیا۔ لیکن کوفہ کے حالات بدل چکے تھے اور یزید کی فوج نے کربلا کے ریگستان میں آپؑ کا راستہ روک لیا۔

2 محرم 61 ہجری کو امام کا قافلہ کربلا پہنچا۔
7 محرم کو خیامِ حسینی پر پانی بند کر دیا گیا۔
اور پھر 10 محرم (عاشورہ) کا وہ دن آیا جس نے زمین و آسمان کو ہلا کر رکھ دیا۔

روزِ عاشورہ: خون کا شمشیر پر فتح پانا:

10 محرم کی صبح، کربلا کا میدان حق اور باطل کے درمیان لکیر بن چکا تھا۔ ایک طرف ہزاروں کا لشکر تھا جو دنیاوی لالچ میں اندھا تھا، اور دوسری طرف صرف 72 نفوس قدسیہ تھے جو خدا کی رضا اور دین کی بقا کے لیے ڈٹے ہوئے تھے۔

امام حسینؑ کے ساتھیوں، بھائیوں، بھتیجوں اور بیٹوں نے باری باری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پیاس کی شدت کے باوجود، ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ بالآخر، عصرِ عاشور امام حسینؑ نے سجدہ خالق میں سر رکھ کر جامِ شہادت نوش کیا اور ثابت کر دیا کہ "سر کٹ سکتا ہے لیکن باطل کے آگے جھک نہیں سکتا۔"

امام حسینؑ کا پیغام: کربلا آج بھی زندہ ہے

کربلا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ شعور کا ایک مدرسہ ہے۔ امام حسینؑ کا پیغام کسی خاص فرقے یا مذہب کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔

1. ظلم کے خلاف ڈٹ جانا

امام حسینؑ نے سکھایا کہ جب ظالم حکمران اسلامی اور انسانی اقدار کو مسخ کر رہا ہو، تو خاموش رہنا بھی جرم ہے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہی "حسینیت" ہے۔

2. عزت کی موت، ذلت کی زندگی سے بہتر ہے

آپؑ کا مشہور قول ہے: "ہیہات منا الذلہ" (ذلت ہم سے بہت دور ہے)۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اصولوں پر سمجھوتہ کر کے جینے کے بجائے، حق کی خاطر عزت سے مرنے کو ترجیح دے۔

3. صبر اور استقلال

کربلا ہمیں صبر کا حقیقی مفہوم سکھاتی ہے۔ جوان بیٹے کی لاش ہو یا خیموں کا جلنا، امامؑ نے ہر مصیبت پر "صبر" کیا اور اللہ کی رضا پر راضی رہے۔

4. اقلیت اکثریت سے نہیں ڈرتی

کربلا نے یہ فلسفہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا کہ فتح صرف "زیادہ تعداد" کی ہوتی ہے۔ فتح "حق" کی ہوتی ہے، چاہے وہ مٹھی بھر افراد ہی کیوں نہ ہوں۔ آج یزید کا نام نفرت کی علامت ہے جبکہ حسینؑ کا نام محبت اور عقیدت کا نشان ہے۔

خلاصہ :

واقعہ کربلا ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ زندگی کا مقصد صرف کھانا پینا نہیں، بلکہ اعلیٰ اقدار کی حفاظت ہے۔ آج کے دور میں بھی جہاں جہاں ظلم ہے، وہاں وہاں کربلا کا پیغام موجود ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم امام حسینؑ کی قربانی کو صرف آنسو بہانے تک محدود نہ رکھیں، بلکہ ان کے کردار اور افکار کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔

قتلِ حسینؑ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد