شیعہ نیشن
مصنف
07 Dec 2025
تاریخ اشاعت
تاریخِ انسانیت میں ہزاروں خواتین گزری ہیں جنہوں نے اپنے کردار سے دنیا کو متاثر کیا، لیکن آسمانِ نبوت کے سائے میں پروان چڑھنے والی ہستی، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا مقام و مرتبہ انسانی عقل کے احاطے سے باہر ہے۔ آپ (س) صرف ایک بیٹی، بیوی یا ماں نہیں تھیں، بلکہ "سیدۃ نساء العالمین" (تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار) تھیں۔ آپ کی زندگی اطاعتِ الٰہی کا بہترین نمونہ اور آپ کی شہادت ظلم کے خلاف ایک دائمی احتجاج ہے۔
آج کی اس تفصیلی تحریر میں ہم بنتِ رسول (ص) کی زندگی کے مختلف ادوار، ان کے فضائل، ان کی مثالی گھریلو زندگی اور ان پر گزرنے والے ان مصائب کا ذکر کریں گے جن کے نتیجے میں آپ (س) اس دنیا سے شہید ہو کر رخصت ہوئیں۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت 20 جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبریٰ (س) تھیں، جو اسلام کی پہلی خاتون اور محسنہِ اسلام تھیں۔
بی بی فاطمہ کی ولادت کے وقت قریش کی خواتین نے حضرت خدیجہ (س) کا بائیکاٹ کر رکھا تھا، لیکن روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جنت سے حوروں کو آپ کی خدمت کے لیے بھیجا۔
آپ (س) کے مشہور القابات:
رسولِ خدا (ص) اپنی بیٹی سے عام محبت نہیں کرتے تھے بلکہ یہ محبت الٰہی معیار پر تھی۔ آپ (ص) کا مشہور فرمان ہے:
"فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا، اور جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا، اور جس نے مجھے ناراض کیا اس نے اللہ کو ناراض کیا۔" (صحیح بخاری)
جب بھی بی بی فاطمہ (س) تشریف لاتیں، رسول اللہ (ص) اپنی جگہ سے کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ چومتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔ یہ صرف بیٹی کا احترام نہیں تھا، بلکہ امت کو یہ بتانا تھا کہ اس ہستی کا احترام دین کا حصہ ہے۔
جب بی بی فاطمہ (س) سنِ بلوغ کو پہنچیں تو بڑے بڑے سرداروں اور صحابہ نے رشتے کی پیشکش کی، لیکن رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ "فاطمہ کا فیصلہ آسمانوں پر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔" بالآخر یہ عظیم شرف حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کو حاصل ہوا۔
سادگی کا نمونہ:
آپ (س) کا جہیز انتہائی مختصر تھا۔ ایک چمڑے کا بستر، مٹی کے گھڑے، ہاتھ کی چکی اور کچھ ضروری سامان۔ یہ شادی آج کے مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے جو شادیوں پر بے جا اسراف کرتے ہیں۔
گھریلو ماحول:
حضرت علی (ع) اور بی بی فاطمہ (س) کی زندگی محبت اور تقسیمِ کار کا بہترین نمونہ تھی۔ گھر کے اندر کے کام (کھانا پکانا، صفائی، بچوں کی تربیت) سیدہ کے ذمے تھے اور باہر کے کام حضرت علی (ع) کے ذمے تھے۔ آپ (س) نے کبھی حضرت علی (ع) سے ایسی فرمائش نہیں کی جو ان کی استطاعت سے باہر ہو۔ اکثر ایسا ہوتا کہ گھر میں کئی دن تک فاقہ ہوتا، لیکن بی بی نے شکایت کے بجائے شکر ادا کیا۔
قرآن مجید میں اہل بیت (ع) کی عظمت جا بجا موجود ہے۔
11 ہجری کا سال آلِ رسول کے لیے قیامت خیز ثابت ہوا۔ رسول اللہ (ص) کی آنکھ بند ہوتے ہی حالات بدل گئے۔ ابھی کفن میلا بھی نہ ہوا تھا کہ امت نے اہل بیت کے حقوق فراموش کر دیے۔
بی بی فاطمہ (س) کا غم صرف باپ کی جدائی کا غم نہیں تھا، بلکہ وہ دیکھ رہی تھیں کہ اسلام کے حقیقی اصولوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔
آپ (س) نے فرمایا:
"مجھ پر وہ مصیبتیں پڑیں کہ اگر دنوں پر پڑتیں تو وہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔"
آپ (س) دن رات گریہ کرتی تھیں، یہاں تک کہ اہل مدینہ نے شکایت کی کہ آپ کے رونے سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ تب حضرت علی (ع) نے مدینہ سے باہر "بیت الاحزان" (غموں کا گھر) تعمیر کیا جہاں بی بی جا کر اپنے بابا کو روتی تھیں۔
رسول اللہ (ص) کی رحلت کے بعد حکومتی سطح پر جو پہلا بڑا اقدام اٹھایا گیا، وہ باغِ فدک کی ضبطی تھا۔ یہ باغ اللہ کے حکم سے رسول (ص) نے اپنی زندگی میں بی بی فاطمہ (س) کو تحفے میں دیا تھا۔
جب اسے سرکاری تحویل میں لیا گیا تو بی بی فاطمہ (س) خاموش نہیں رہیں۔ آپ (س) نے اسے جائیداد کا مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے حق اور باطل کا معرکہ سمجھا۔
خطبہ فدکیہ:
آپ (س) مسجد نبوی میں تشریف لے گئیں اور ایک تاریخی خطبہ دیا جسے "خطبہ فدکیہ" کہا جاتا ہے۔ پردے کے پیچھے سے دیا گیا یہ خطبہ فصاحت و بلاغت کا شاہکار تھا۔
آپ نے فرمایا: "کیا تم گمان کرتے ہو کہ ہمارا کوئی ورثہ نہیں؟ کیا تم زمانہ جاہلیت کا قانون چاہتے ہو؟ ... اے لوگو! کیا قرآن میں نہیں ہے کہ سلیمان، داؤد کے وارث ہوئے؟"
آپ کا یہ احتجاج جائیداد کے لیے نہیں تھا، بلکہ خلافت اور ولایت کے غصب ہونے کے خلاف ایک سیاسی اور دینی مزاحمت تھی۔
یہ تاریخِ اسلام کا سب سے حساس اور دردناک باب ہے جسے اکثر چھپایا جاتا ہے، لیکن کتبِ تاریخ و سیرت (شیعہ و سنی دونوں منابع) میں اس کے اشارے موجود ہیں۔
حکومت وقت بیعت لینے کے لیے حضرت علی (ع) کے گھر پر اصرار کر رہی تھی۔ کچھ لوگ لکڑیاں اور آگ لے کر بی بی فاطمہ (س) کے گھر پہنچ گئے۔
دروازے پر آگ:
روایات کے مطابق، ہجوم نے دھمکی دی کہ اگر علی (ع) باہر نہ آئے تو ہم گھر کو آگ لگا دیں گے۔ کسی نے کہا کہ "اس گھر میں تو فاطمہ بھی ہیں۔" جواب ملا: "وان (ہاں تو کیا ہوا)۔"
پھر دروازے کو آگ لگا دی گئی۔ سیدہ فاطمہ (س)، جو دروازے کے پیچھے پردے کے لیے کھڑی تھیں، ان پر جلتا ہوا دروازہ گرایا گیا۔
حضرت محسن (ع) کی شہادت:
اس سانحے میں بی بی فاطمہ (س) کو شدید جسمانی صدمہ پہنچا۔
یہ وہ زخم تھے جو بالآخر آپ کی شہادت کا سبب بنے۔ اس واقعے کے بعد آپ (س) بسترِ علالت پر پڑ گئیں اور پھر کبھی صحت یاب نہ ہو سکیں۔
زندگی کے آخری ایام میں آپ (س) کا جسم انتہائی کمزور ہو چکا تھا۔ آپ (س) نے ان لوگوں سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا جنہوں نے آپ کو تکلیف دی تھی۔
جب وقتِ آخر قریب آیا تو آپ نے مولا علی (ع) کو اپنے پاس بلایا اور چند تاریخی وصیتیں کیں جو آپ کی ناراضگی کا کھلا ثبوت ہیں:
یہ وصیتیں کوئی عام وصیتیں نہیں تھیں، بلکہ یہ امت کے ضمیر پر ایک تازیانہ تھیں۔
روایات میں اختلاف ہے، لیکن مشہور روایت کے مطابق 3 جمادی الثانی 11 ہجری کو، رسول اللہ (ص) کی رحلت کے صرف 75 یا 95 دن بعد، 18 سال کی عمر میں سیدہ کائنات (س) جامِ شہادت نوش کر گئیں۔
مدینہ میں کہرام مچ گیا۔ لیکن وصیت کے مطابق، رات کے پچھلے پہر، مولا علی (ع)، حسنین کریمین (ع) اور چند وفادار ساتھیوں (جیسے حضرت سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار) نے خاموشی سے جنازہ اٹھایا۔
جنت البقیع میں یا اپنے ہی گھر میں (روایات مختلف ہیں) بی بی کو سپرد خاک کیا گیا اور قبر کے نشانات مٹا دیے گئے۔ جب صبح ہوئی اور لوگوں نے جنازہ پڑھنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ دخترِ رسول (ص) دفن ہو چکی ہیں۔
آج تک سوال زندہ ہے:
آج 1400 سال گزرنے کے بعد بھی کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال چبھتا ہے کہ "رسول زادی کی قبر کہاں ہے؟"
یہ پوشیدہ قبر دراصل ایک "خاموش احتجاج" ہے۔ یہ قیامت تک آنے والے ہر انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر وہ کیا حالات تھے کہ رحمت اللعالمین کی بیٹی اپنی امت سے ناراض ہو کر دنیا سے گئیں۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ حق کے لیے تعداد کا زیادہ ہونا ضروری نہیں، بلکہ کردار کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ آپ نے ولایت کے دفاع میں اپنی جان قربان کر دی اور ثابت کیا کہ ظالم چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، حق گو زبان کو خاموش نہیں کیا جا سکتا۔
آج اگر ہم بی بی فاطمہ (س) سے سچی عقیدت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں:
اللہ تعالیٰ ہمیں سیدہ کائنات (س) کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور روزِ محشر ان کی شفاعت نصیب کرے۔ (آمین)